عید عربی زبان کا لفظ ہے، جو عود سے مُشتق ہے عود کا مطلب کسی چیز کا بار بار آنا اور چوں کہ عید ہرسال آتی ہے، اس لئے اس کا نام عید (الفطر) رکھا گیا۔
رمضان المبارک کے روزوں، نزول قرآن، لیلۃ القدر، اللہ تعالیٰ کی طرف سے روزہ داروں کے لئے رحمت و بخشش اور عذاب جہنم سے آزادی کے باعث عید کو مومنین کے لئے ’’خوشی کا دن قرار‘‘ دیا گیا ہے۔عید شادمانی اور خوشیاں منانے کا دن ہے، اس دن بچے، جوان اور ضعیف العمر مرد وخواتین نئے ملبوسات زیب تن کرتے ہیں اور مرد حضرات عیدگاہ کی طرف روانہ ہوتے ہیں، جہاں وہ شکرانہ کے طور پر دو رکعت باجماعت نماز ادا کرتے ہیں۔ عیدگاہ سے واپسی کے بعد دومسلمان بھائی آپس میں گلے ملتے ہیں۔ ایک دوسرے سے اپنی کوتاہیوں، زیادتیوں اور غلطیوں کی معافی طلب کرتے ہیں، پھر کھاؤ اور کھلاؤ کا دور شروع ہوتا ہے۔
اگر کوئی شخص مالی اعتبار سے کمزور ہے، تب بھی وہ اپنی طاقت کے بقدر عمدہ سے عمدہ اور بہترین کھانے بنا کر مہمانوں کی اوردیگر احباب واقارب کی ضیافت کرتا ہے۔ وطن عزیز میں بھی عید روایتی اور مذہبی جوش و خروش سے منائی جاتی ہے، یہاں ہر طبقہ عید کی خوشیوں میں اپنے تئیں شریک ہونے کی کوشش کرتا ہے… لیکن ابتر ملکی حالات، غربت، مہنگائی، بے روزگاری، منفی سماجی رویے، بگڑتے خاندانی نظام اور جدید دور کی ایجادات (موبائل فون اور کمپیوٹر وغیرہ) کے غیرضروری استعمال کے باعث آج عید کی خوشیوں میں روایتی جوش، ولولہ، امنگ، خلوص، محبت اور پیار ناپید ہوتا جا رہا ہے۔
عید کا انتظار اور اسے منانے کے ساتھ منسلک جوش و خروش اب کہیں دکھائی نہیں دیتا، آج عید بہت مکینکل ہو گئی ہے، اس کی خوشی میں وہ خلوص اور فطری پن نہیں رہا جو پہلے ہوا کرتا تھا۔ عید کی حقیقی خوشی وقت کے ساتھ ساتھ ماند پڑتی جا رہی ہے اور یوں لگتا ہے کہ عید کے چاند کو غربت، مہنگائی، لوڈ شیڈنگ، بد امنی، عدم تحفظ، ناانصافی اور دیگر مسائل کا گہن لگتا جا رہا ہے۔ متعدد مسائل میں گھرے عوام کے لئے ماہ صیام کے روزوں کے بعد سب سے زیادہ خوشی دینے والا تہوار اب واجبی سا رہ گیا ہے۔
روز افزاں ترقی نے راستے سمیٹنے کے بجائے مزید بڑھا دیئے ہیں، اب عید کے روز شہری مصنوعی خوشیوں کی تلاش میں حقیقی عزیز و اقارب سے دور ہوتے جا رہے ہیں۔ آج سے تین، چار دہائی قبل عید کے رنگ ہی نرالے تھے۔ صبح صبح نماز عید کے بعد رشتے داروں کا ایک دوسرے کے گھروں کا چکر لگانا، بچوں کی عیدی کے لئے ضد، تحائف کا تبادلہ بھی اب کہیں کہیں ہی دیکھنے میں آتا ہے، جس کی بڑی وجہ تو مہنگائی کو قرار دیا جا سکتا ہے لیکن سماجی رویوں نے بھی ہمارے اطوار پر بڑا اثر ڈالا ہے۔
اب تو صرف موبائل فون کے ذریعے ’’فاروڈ‘‘ ایس ایم ایس بھیج کر اپنی اخلاقی ذمہ داری پوری کرلی جاتی ہے۔ عید پر بھیجے جانے والے تنہتی کارڈ ایک دہائی قبل موبائل فون کی آمد کے ساتھ ہی قصہ پارینہ بن چکے ہیں۔ ہمارا اجتماعی خاندانی نظام زوال پذیر ہونے سے اب عید تہوار پر ہی خاندان اکٹھے ہو پاتے ہیں، وہ بھی چند لمحوں کے لئے، اس دوران بھی خاندان کے بیشتر نوجوان، بچے موبائل اور کمپیوٹر پر وقت گزاری کو ترجیح دیتے ہیں جبکہ بڑے، بوڑھے پرانے وقتوں کو یاد کرکے کڑھتے نظر آتے ہیں۔ بڑوں کے ذہنوں اور دلوں پر عید کے جو نقوش کندہ ہیں، موجود زمانے میں وہ اسے یاد کر کے صرف آہیں ہی بھر سکتے ہیں۔
رمضان المبارک کے آخری روز چھتوں پر چڑھ کر مشترکہ طور پر چاند دیکھنے کی رسم بھی معدوم ہو چکی ہے، اب تو گھر والے اکٹھے ہو بھی جائیں تو ٹی وی کے سامنے بیٹھ کر باقاعدہ اعلان ہونے کا انتظار کرتے ہیں۔ چاند رات کو رشتہ داروں، ہمسایوں کے گھر عیدی لے کر جانے کا رواج دم توڑ گیا ہے، اس کے برعکس چاند نظر آنے کا اعلان ہوتے ہی سارا خاندان بازاروں کا رِخ کرتا ہے تاکہ خریداری میں اگر کوئی کمی رہ گئی ہے تو اسے پورا کرلیا جائے۔ ساری رات بازاروں میں گزارنے کے بعد گھر کے بیشتر افراد صبح سو جاتے ہیں اور محلہ یا شہر کی عید گاہ میں اکٹھے ہو کر نماز عید کی ادائیگی کے لئے جانے کی بجائے گھر میں نیند پوری کی جاتی ہے۔
ملک میں ایک دہائی سے جاری دہشت گردی، لاقانونیت اور شدت پسندی کے زخم بھی عید کے روز گہرے ہو جاتے ہیں اور ملک کے 50 ہزار سے زائد افراد (سرکاری رپورٹس کے مطابق) جو دہشت گردی کی آگ کا ایندھن بن چکے ہیں، عید پر ان کے گھروں میں حقیقی خوشی کی توقع کرنا درست نہ ہوگا، یوں براہ راست لاکھوں خاندان متاثر ہوئے ہیں۔ جن لوگوں کے اپنے پیارے دہشت گردی کی نذر ہو چکے ہیں اُن کے لیے زندگی اپنے معمول سے ہٹ چکی ہے اور عید پر بھی دکھ کا ماحول برقرار رہتا ہے۔
ایسا ماحول بن گیا ہے کہ شہروں میں عید کے روز بھی شہری گھروں میں دبک کر بیٹھنے کو ترجیح دیتے ہیں کہ کسی اندھی گولی یا کسی خودکش بمبار کا نشانہ بننے سے بہتر گھر میں رہنا ہے۔ ہر شخص اپنی ذات کے خول میں بند اپنی جان اور عزت بچانے کے لئے جہدوجہد میں مصروف ہے۔ بچوں کی معصوم خواہشات پوری کرنے کے لالے پڑے ہوتے ہیں۔
ماضی کی عید کی روایات اور خوشیاں قصہ پارینہ بنتی جا رہی ہیں۔ لوگوں کے پاس ایک دوسرے کے لئے وقت نہیں، ہر شخص اپنی مصروفیات کے بوجھ تلے دب گیا ہے۔ کچھ تو معاشی اور سماجی مسائل، کچھ ہم نے خود ہی اپنی عیدیں ویران کردی ہیں۔
ملک کے بڑے بڑے شہر پردیسیوں کی اپنے شہروں، دیہاتوں کو روانگی کی وجہ سے ویران ہو جاتے ہیں جبکہ جو پردیسی ہفتوں، مہینوں، سالوں بعد اپنے آبائی علاقہ میں قدم رکھتے ہیں تو وہاں کا نقشہ بھی تبدیل ہو چکا ہوتا ہے، وہاں ان کے سب جاننے والے اپنی زندگی کی مصروفیات میں مگن ہو چکے ہوتے ہیں، جس کی وجہ سے پردیسی اپنے آبائی علاقوں میں بھی پردیسیوں جیسی عید گزار کر واپس پردیس روانہ ہو جاتے ہیں۔
آج ہماری عیدیں مہنگائی، عدم تحفظ، افراتفری، منافقت سے آلودہ ہیں جبکہ ماضی میں ایسی چیزیں بہت کم دیکھنے میں آتی تھیں۔ معاشرے میں بڑھتی ہوئی طبقاتی خلیج نے بھی عیدوں کا رنگ پھیکا کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ چاند رات پر ایک مخصوص طبقہ خریداری پر بے دریغ رقم لٹاتا نظر آتا ہے تو دوسری طرف لاکھوں افراد عید کے روز بھی گھر کا چولہا روشن رکھنے کی تگ و دو میں مصروف دکھائی دیتے ہیں۔ لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ ماضی کی ان خوشگوار اور محبت بھری روایات کو پھر سے زندگی بخشنے کی کوشش کی جائے، جس کے لئے سب سے ضروری نکتہ ہمارا خود پر انحصار کرنے کے ساتھ اپنے اندر دوسروں میں خوشیاں بانٹنے کا جذبہ پیدا کرنا ہے، کیوں کہ اسی مشق سے ہم اپنی پھیکی پڑتی زندگیوں میں دوبارہ سے رنگ بھر سکتے ہیں۔
مہنگائی، بیروزگاری، لوڈ شیڈنگ جیسی مشکلات پر قابو پانا تو ہمارے بس کی بات نہیں، لیکن اگر ہم اپنے طرز عمل میں معمولی تبدیلی لے آئیں تو عید کی خوشیوں کو دوبالا کیا جا سکتا ہے۔ عید سے قبل ہم اپنے قریبی رشتہ داروں، ہمسائیوں کے حقوق کا بھی خیال کریں اور انہیں اپنی خوشیوں میں شامل کریں تو ہماری اپنی مسرتیں بھی دوبالا ہو جائیں گی۔ عید کا دن گھر پر سو کر گزارنے کے بجائے رشتہ داروں، دوست احباب کیساتھ گزارا جائے۔ پرانی رنجشیں بھلا کر سب کو معاف کر کے نئے سرے سے شروعات کی جائے تو بیشتر پرانے زخم مندمل ہو سکتے ہیں اور رنجشیں بھلانے کیلئے عید سے بہتر کون سا موقع ہو سکتا ہے؟
ماند پڑتی عید کی خوشیوں پر مذہبی، سماجی اور معاشی ماہرین کیا کہتے ہیں…؟
ماہر معاشیات ڈاکٹر قیس اسلم نے ’’ایکسپریس‘‘ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ جب چیزیں کمرشلائز ہوتی ہیں تو پھر تہوار امیروں تک ہی محدود ہو جاتے ہیں۔ نہایت افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ پاکستان کی کُل آبادی کا 85 فیصد غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کر رہا ہے۔
عید خوشی کے بجائے ان کیلئے ایک خوف بنتی جا رہی ہے کیوں کہ اس تہوار پر اٹھنے والے اخراجات کی ان میں استعداد ہی نہیں۔ یہ لوگ رشتہ داروں حتی کہ اپنے بچوں سے بھی منہ چھپاتے پھرتے ہیں، تو کون عید کی خوشیاں منائے گا؟۔ استاد جامعہ دارالقرآن فیصل آباد مفتی محمد یونس چیمہ نے بتایا کہ اسلامی نقطہ نظر سے عید خالص دینی تہوار ہے، جس کے مخصوص اعمال اور احکامات ہیں۔ عید کا رسومات سے کوئی تعلق نہیں، کیوں کہ رسم و رواج ہردور اور علاقہ کے اپنے اپنے ہوتے ہیں، جو وقت کے ساتھ بدلتے بھی رہتے ہیں۔
بازاروں کو سجانا اور نوجوانوں کی ٹولیوں کی صورت میں ہلڑبازی، فلم دیکھنے کے لئے سینماؤں میں جانے سمیت دیگر خرافات کو عید کی روایتی یا حقیقی خوشی نہیں کہا جا سکتا۔ ہاں وطن عزیز میں عید کی فطری خوشی میں کمی ضرور آئی ہے، جس کی وجوہات امن و امان کی ابتر صورت حال، گھریلو تنازعات، جرائم کی شرح میں اضافہ، فرقہ واریت، موسمی سختی اور لوڈشیڈنگ جیسے عوامل ہیں۔ سوشیالوجی ڈیپارٹمنٹ پنجاب یونیورسٹی کے سربراہ و ماہر سماجیات پروفیسر ڈاکٹر زکریا ذاکر کا کہنا ہے کہ ہم کس چیز کی خوشی منا رہے ہیں؟
ماہ صیام کا بنیادی مقصد تو دیانتداری اور معاشرے میں بہتری لانا ہے لیکن ہمارا معاشرہ تو ابتری کی طرف گامزن ہے، کیوں؟ کیوں کہ ہمارے رویے اور اعمال درست نہیں، رمضان المبارک کے دوران سرکاری دفاتر میں چلے جائیں تو ہر بندہ کہہ رہا ہوتا ہے، آج کل تو کوئی کام نہیں ہو رہا، عید کے بعد آئیے گا، حتی کہ چھابڑی والا بھی سبزی مہنگی کر دیتا ہے، تو ایسے میں ہمیں عید کی فطری خوشی کیسے نصیب ہو گی۔ پھر ہمارے ہاں بجلی اور پانی نہ ہونے سے لوگ پتھر کے دور میں رہے ہیں، وسائل کم اور مسائل بڑھنے سے خوشیاں ہم سے روٹھ رہی ہیں۔
معروف دانش ور ڈاکٹر عاصم اللہ بخش کے مطابق مصنوعی ماحول کی وجہ سے حقیقی خوشیاں ہم سے دور ہوتی چلی جا رہی ہیں۔ عید کے موقع پر خوشی ایک دوسرے سے ملنے اور مل بیٹھنے سے حاصل ہوتی ہے لیکن باقاعدہ ملنے کے بجائے جب موبائل کے ذریعے ایس ایم ایس کر دینے کو کافی سمجھ لیا جائے گا، تو پھر خوشیاں کہاں سے آئیں گی؟
0 comments to "عید کی روایتی خوشیاں کہاں کھو گئیں…؟"