Showing posts with label Entertainment. Show all posts
ممبئی: بالی ووڈ کی ناظرین نے 70 کی دہائی کی کامیاب ترین فلم ’’شعلے‘‘ میں امیتابھ بچن اور دھرمیندر کی جوڑی سب سے کامیاب اور بہترین دوستی قرار دیا ہے۔
بالی ووڈ کی مشہور و معروف فلم ’’شعلے‘‘ کو کم و بیش 40 سال ہوگئے ہیں لیکن اس کا ہر کردار اب بھی ناظرین کے ذہنوں میں نقش ہے۔ فلم میں جہاں گبر سنگھ کے کردار نے امجد خان کو امر کردیا وہیں دونوں ہاتھوں سے محروم ٹھاکر کا کردار ادا کرنے والے سنجیو کمار بھی ناظرین کے ذہنوں میں نقش ہیں، فلم میں ہیرو کا کردار امیتابھ بچن کم گو ’’جے‘‘ اور دھرمیندر نے دل پھینک ’’ویرو‘‘ کا کردار ادا کیا تھا، فلم میں دونوں کی عادتیں ایک دوسرے سے یکسر مختلف دکھائی گئیں لیکن دونوں کے درمیان دوستی کو آج بھی ضرب المثل سمجھا جاتا ہے۔
حال ہی میں بھارت کی ایک ویب سائٹ کی جانب سے دوستی کل عالمی دن کے موقع پر ایک سروے کا اہتمام کیا گیا جس میں صارفین سے فلموں میں سب سے پسندیدہ دوست جوڑی کے بارے میں سوال کیا گیا۔ سروے کے دوران 39 فیصد افراد نے جے اور ویرو کی جوڑی کو بے مثال قرار دیا، دوسرے نمبر پر ’’کچھ کچھ ہوتا ہے‘‘ شاہ رخ خان اور کاجول (راہول اور انجلی ) جبکہ حال ہی میں ریلیز ہونے والی فلم ’’کوئن‘‘ میں کنگنا رناوت اور لیزا ہیڈن (رانی اور وجے لکشمی) کی جوڑی تیسرے نبمبر پر رہی۔
آنیوالی فلم بجرنگی بھائی جان میں سلمان خان کے ساتھ کام کرنیوالی اداکارہ کا کہنا ہے کہ سلمان کے ساتھ کام کرتے ہوئے ہمیشہ بہت مزہ آیا ہے اور اس فلم میں بھی ان کے ساتھ کام کرکے اپنا ہی لطف اٹھایا ہے انھوں نے کہا کہ اس فلم کا مجھے اسکرپٹ بہت پسند آیا تھا اور جب میں نے یہ فلم کی تو اپنا کردار مجھے حقیقت میں بہت ہی اچھا لگا انھوں نے کہا کہ فلم میں میرا کردار ایک برہمن لڑکی کا ہے انھوں نے کہا کہ میرے لیے اس فلم کے ڈائریکٹر کبیر بھی بالکل نئے ہیں اور ان کے ساتھ کام کرنا بھی میرے لیے ایک منفرد اور خوشگوار تجربہ تھا۔
ممبئی: بھارتی ریاست مدھیہ پردیش کے شہر بھوپال میں علما نے عیدالفطر کے خطبات کے دوران مسلمانوں کو سلمان خان کی نئی فلم نہ دیکھنے کی اپیل کردی۔
بھارتی میڈیا کے مطابق بھوپال کی تاریخی عید گاہ میں لاکھوں افراد نماز عید کی ادائیگی کے لئے موجود تھے اس دوران قاضی شہر سید مشتاق ندوی نے اپنے خطبے کے دوران کہا کہ عید الفطر رمضان المبارک میں کی گئی عبادات کا صلہ ہے اسے منانے کے کئی طریقے ہیں، اس بابرکت دن کو سینما گھروں میں جاکر برباد نہ کیا جائے بلکہ اپنے گھروں میں رہ کر مہمانوں کا خیر مقدم کریں اور اللہ کی رحمتیں حاصل کریں۔
مشتاق ندوی کا کہنا تھا کہ سلمان خان کا نام نہ لیتے ہوئے کہا کہ ہر سال عید الفطر پر ایک اداکار کی فلم ریلیز ہوتی ہے اور مسلمانوں کی بڑی تعداد اسے دیکھنے جاتی ہے لیکن وہ اب گزارش کرتے ہیں کہ آج وہ کوئی بھی فلم دیکھنے نہ جائیں۔ اگر مسلمان آج کے دن اس کی فلم نہیں دیکھیں گے تو وہ بھی عید کے موقع پر اپنی فلموں کی ریلیز نہیں کرے گا۔
عید عربی زبان کا لفظ ہے، جو عود سے مُشتق ہے عود کا مطلب کسی چیز کا بار بار آنا اور چوں کہ عید ہرسال آتی ہے، اس لئے اس کا نام عید (الفطر) رکھا گیا۔
رمضان المبارک کے روزوں، نزول قرآن، لیلۃ القدر، اللہ تعالیٰ کی طرف سے روزہ داروں کے لئے رحمت و بخشش اور عذاب جہنم سے آزادی کے باعث عید کو مومنین کے لئے ’’خوشی کا دن قرار‘‘ دیا گیا ہے۔عید شادمانی اور خوشیاں منانے کا دن ہے، اس دن بچے، جوان اور ضعیف العمر مرد وخواتین نئے ملبوسات زیب تن کرتے ہیں اور مرد حضرات عیدگاہ کی طرف روانہ ہوتے ہیں، جہاں وہ شکرانہ کے طور پر دو رکعت باجماعت نماز ادا کرتے ہیں۔ عیدگاہ سے واپسی کے بعد دومسلمان بھائی آپس میں گلے ملتے ہیں۔ ایک دوسرے سے اپنی کوتاہیوں، زیادتیوں اور غلطیوں کی معافی طلب کرتے ہیں، پھر کھاؤ اور کھلاؤ کا دور شروع ہوتا ہے۔
اگر کوئی شخص مالی اعتبار سے کمزور ہے، تب بھی وہ اپنی طاقت کے بقدر عمدہ سے عمدہ اور بہترین کھانے بنا کر مہمانوں کی اوردیگر احباب واقارب کی ضیافت کرتا ہے۔ وطن عزیز میں بھی عید روایتی اور مذہبی جوش و خروش سے منائی جاتی ہے، یہاں ہر طبقہ عید کی خوشیوں میں اپنے تئیں شریک ہونے کی کوشش کرتا ہے… لیکن ابتر ملکی حالات، غربت، مہنگائی، بے روزگاری، منفی سماجی رویے، بگڑتے خاندانی نظام اور جدید دور کی ایجادات (موبائل فون اور کمپیوٹر وغیرہ) کے غیرضروری استعمال کے باعث آج عید کی خوشیوں میں روایتی جوش، ولولہ، امنگ، خلوص، محبت اور پیار ناپید ہوتا جا رہا ہے۔
عید کا انتظار اور اسے منانے کے ساتھ منسلک جوش و خروش اب کہیں دکھائی نہیں دیتا، آج عید بہت مکینکل ہو گئی ہے، اس کی خوشی میں وہ خلوص اور فطری پن نہیں رہا جو پہلے ہوا کرتا تھا۔ عید کی حقیقی خوشی وقت کے ساتھ ساتھ ماند پڑتی جا رہی ہے اور یوں لگتا ہے کہ عید کے چاند کو غربت، مہنگائی، لوڈ شیڈنگ، بد امنی، عدم تحفظ، ناانصافی اور دیگر مسائل کا گہن لگتا جا رہا ہے۔ متعدد مسائل میں گھرے عوام کے لئے ماہ صیام کے روزوں کے بعد سب سے زیادہ خوشی دینے والا تہوار اب واجبی سا رہ گیا ہے۔
روز افزاں ترقی نے راستے سمیٹنے کے بجائے مزید بڑھا دیئے ہیں، اب عید کے روز شہری مصنوعی خوشیوں کی تلاش میں حقیقی عزیز و اقارب سے دور ہوتے جا رہے ہیں۔ آج سے تین، چار دہائی قبل عید کے رنگ ہی نرالے تھے۔ صبح صبح نماز عید کے بعد رشتے داروں کا ایک دوسرے کے گھروں کا چکر لگانا، بچوں کی عیدی کے لئے ضد، تحائف کا تبادلہ بھی اب کہیں کہیں ہی دیکھنے میں آتا ہے، جس کی بڑی وجہ تو مہنگائی کو قرار دیا جا سکتا ہے لیکن سماجی رویوں نے بھی ہمارے اطوار پر بڑا اثر ڈالا ہے۔
اب تو صرف موبائل فون کے ذریعے ’’فاروڈ‘‘ ایس ایم ایس بھیج کر اپنی اخلاقی ذمہ داری پوری کرلی جاتی ہے۔ عید پر بھیجے جانے والے تنہتی کارڈ ایک دہائی قبل موبائل فون کی آمد کے ساتھ ہی قصہ پارینہ بن چکے ہیں۔ ہمارا اجتماعی خاندانی نظام زوال پذیر ہونے سے اب عید تہوار پر ہی خاندان اکٹھے ہو پاتے ہیں، وہ بھی چند لمحوں کے لئے، اس دوران بھی خاندان کے بیشتر نوجوان، بچے موبائل اور کمپیوٹر پر وقت گزاری کو ترجیح دیتے ہیں جبکہ بڑے، بوڑھے پرانے وقتوں کو یاد کرکے کڑھتے نظر آتے ہیں۔ بڑوں کے ذہنوں اور دلوں پر عید کے جو نقوش کندہ ہیں، موجود زمانے میں وہ اسے یاد کر کے صرف آہیں ہی بھر سکتے ہیں۔
رمضان المبارک کے آخری روز چھتوں پر چڑھ کر مشترکہ طور پر چاند دیکھنے کی رسم بھی معدوم ہو چکی ہے، اب تو گھر والے اکٹھے ہو بھی جائیں تو ٹی وی کے سامنے بیٹھ کر باقاعدہ اعلان ہونے کا انتظار کرتے ہیں۔ چاند رات کو رشتہ داروں، ہمسایوں کے گھر عیدی لے کر جانے کا رواج دم توڑ گیا ہے، اس کے برعکس چاند نظر آنے کا اعلان ہوتے ہی سارا خاندان بازاروں کا رِخ کرتا ہے تاکہ خریداری میں اگر کوئی کمی رہ گئی ہے تو اسے پورا کرلیا جائے۔ ساری رات بازاروں میں گزارنے کے بعد گھر کے بیشتر افراد صبح سو جاتے ہیں اور محلہ یا شہر کی عید گاہ میں اکٹھے ہو کر نماز عید کی ادائیگی کے لئے جانے کی بجائے گھر میں نیند پوری کی جاتی ہے۔
ملک میں ایک دہائی سے جاری دہشت گردی، لاقانونیت اور شدت پسندی کے زخم بھی عید کے روز گہرے ہو جاتے ہیں اور ملک کے 50 ہزار سے زائد افراد (سرکاری رپورٹس کے مطابق) جو دہشت گردی کی آگ کا ایندھن بن چکے ہیں، عید پر ان کے گھروں میں حقیقی خوشی کی توقع کرنا درست نہ ہوگا، یوں براہ راست لاکھوں خاندان متاثر ہوئے ہیں۔ جن لوگوں کے اپنے پیارے دہشت گردی کی نذر ہو چکے ہیں اُن کے لیے زندگی اپنے معمول سے ہٹ چکی ہے اور عید پر بھی دکھ کا ماحول برقرار رہتا ہے۔
ایسا ماحول بن گیا ہے کہ شہروں میں عید کے روز بھی شہری گھروں میں دبک کر بیٹھنے کو ترجیح دیتے ہیں کہ کسی اندھی گولی یا کسی خودکش بمبار کا نشانہ بننے سے بہتر گھر میں رہنا ہے۔ ہر شخص اپنی ذات کے خول میں بند اپنی جان اور عزت بچانے کے لئے جہدوجہد میں مصروف ہے۔ بچوں کی معصوم خواہشات پوری کرنے کے لالے پڑے ہوتے ہیں۔
ماضی کی عید کی روایات اور خوشیاں قصہ پارینہ بنتی جا رہی ہیں۔ لوگوں کے پاس ایک دوسرے کے لئے وقت نہیں، ہر شخص اپنی مصروفیات کے بوجھ تلے دب گیا ہے۔ کچھ تو معاشی اور سماجی مسائل، کچھ ہم نے خود ہی اپنی عیدیں ویران کردی ہیں۔
ملک کے بڑے بڑے شہر پردیسیوں کی اپنے شہروں، دیہاتوں کو روانگی کی وجہ سے ویران ہو جاتے ہیں جبکہ جو پردیسی ہفتوں، مہینوں، سالوں بعد اپنے آبائی علاقہ میں قدم رکھتے ہیں تو وہاں کا نقشہ بھی تبدیل ہو چکا ہوتا ہے، وہاں ان کے سب جاننے والے اپنی زندگی کی مصروفیات میں مگن ہو چکے ہوتے ہیں، جس کی وجہ سے پردیسی اپنے آبائی علاقوں میں بھی پردیسیوں جیسی عید گزار کر واپس پردیس روانہ ہو جاتے ہیں۔
آج ہماری عیدیں مہنگائی، عدم تحفظ، افراتفری، منافقت سے آلودہ ہیں جبکہ ماضی میں ایسی چیزیں بہت کم دیکھنے میں آتی تھیں۔ معاشرے میں بڑھتی ہوئی طبقاتی خلیج نے بھی عیدوں کا رنگ پھیکا کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ چاند رات پر ایک مخصوص طبقہ خریداری پر بے دریغ رقم لٹاتا نظر آتا ہے تو دوسری طرف لاکھوں افراد عید کے روز بھی گھر کا چولہا روشن رکھنے کی تگ و دو میں مصروف دکھائی دیتے ہیں۔ لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ ماضی کی ان خوشگوار اور محبت بھری روایات کو پھر سے زندگی بخشنے کی کوشش کی جائے، جس کے لئے سب سے ضروری نکتہ ہمارا خود پر انحصار کرنے کے ساتھ اپنے اندر دوسروں میں خوشیاں بانٹنے کا جذبہ پیدا کرنا ہے، کیوں کہ اسی مشق سے ہم اپنی پھیکی پڑتی زندگیوں میں دوبارہ سے رنگ بھر سکتے ہیں۔
مہنگائی، بیروزگاری، لوڈ شیڈنگ جیسی مشکلات پر قابو پانا تو ہمارے بس کی بات نہیں، لیکن اگر ہم اپنے طرز عمل میں معمولی تبدیلی لے آئیں تو عید کی خوشیوں کو دوبالا کیا جا سکتا ہے۔ عید سے قبل ہم اپنے قریبی رشتہ داروں، ہمسائیوں کے حقوق کا بھی خیال کریں اور انہیں اپنی خوشیوں میں شامل کریں تو ہماری اپنی مسرتیں بھی دوبالا ہو جائیں گی۔ عید کا دن گھر پر سو کر گزارنے کے بجائے رشتہ داروں، دوست احباب کیساتھ گزارا جائے۔ پرانی رنجشیں بھلا کر سب کو معاف کر کے نئے سرے سے شروعات کی جائے تو بیشتر پرانے زخم مندمل ہو سکتے ہیں اور رنجشیں بھلانے کیلئے عید سے بہتر کون سا موقع ہو سکتا ہے؟
ماند پڑتی عید کی خوشیوں پر مذہبی، سماجی اور معاشی ماہرین کیا کہتے ہیں…؟
ماہر معاشیات ڈاکٹر قیس اسلم نے ’’ایکسپریس‘‘ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ جب چیزیں کمرشلائز ہوتی ہیں تو پھر تہوار امیروں تک ہی محدود ہو جاتے ہیں۔ نہایت افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ پاکستان کی کُل آبادی کا 85 فیصد غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کر رہا ہے۔
عید خوشی کے بجائے ان کیلئے ایک خوف بنتی جا رہی ہے کیوں کہ اس تہوار پر اٹھنے والے اخراجات کی ان میں استعداد ہی نہیں۔ یہ لوگ رشتہ داروں حتی کہ اپنے بچوں سے بھی منہ چھپاتے پھرتے ہیں، تو کون عید کی خوشیاں منائے گا؟۔ استاد جامعہ دارالقرآن فیصل آباد مفتی محمد یونس چیمہ نے بتایا کہ اسلامی نقطہ نظر سے عید خالص دینی تہوار ہے، جس کے مخصوص اعمال اور احکامات ہیں۔ عید کا رسومات سے کوئی تعلق نہیں، کیوں کہ رسم و رواج ہردور اور علاقہ کے اپنے اپنے ہوتے ہیں، جو وقت کے ساتھ بدلتے بھی رہتے ہیں۔
بازاروں کو سجانا اور نوجوانوں کی ٹولیوں کی صورت میں ہلڑبازی، فلم دیکھنے کے لئے سینماؤں میں جانے سمیت دیگر خرافات کو عید کی روایتی یا حقیقی خوشی نہیں کہا جا سکتا۔ ہاں وطن عزیز میں عید کی فطری خوشی میں کمی ضرور آئی ہے، جس کی وجوہات امن و امان کی ابتر صورت حال، گھریلو تنازعات، جرائم کی شرح میں اضافہ، فرقہ واریت، موسمی سختی اور لوڈشیڈنگ جیسے عوامل ہیں۔ سوشیالوجی ڈیپارٹمنٹ پنجاب یونیورسٹی کے سربراہ و ماہر سماجیات پروفیسر ڈاکٹر زکریا ذاکر کا کہنا ہے کہ ہم کس چیز کی خوشی منا رہے ہیں؟
ماہ صیام کا بنیادی مقصد تو دیانتداری اور معاشرے میں بہتری لانا ہے لیکن ہمارا معاشرہ تو ابتری کی طرف گامزن ہے، کیوں؟ کیوں کہ ہمارے رویے اور اعمال درست نہیں، رمضان المبارک کے دوران سرکاری دفاتر میں چلے جائیں تو ہر بندہ کہہ رہا ہوتا ہے، آج کل تو کوئی کام نہیں ہو رہا، عید کے بعد آئیے گا، حتی کہ چھابڑی والا بھی سبزی مہنگی کر دیتا ہے، تو ایسے میں ہمیں عید کی فطری خوشی کیسے نصیب ہو گی۔ پھر ہمارے ہاں بجلی اور پانی نہ ہونے سے لوگ پتھر کے دور میں رہے ہیں، وسائل کم اور مسائل بڑھنے سے خوشیاں ہم سے روٹھ رہی ہیں۔
معروف دانش ور ڈاکٹر عاصم اللہ بخش کے مطابق مصنوعی ماحول کی وجہ سے حقیقی خوشیاں ہم سے دور ہوتی چلی جا رہی ہیں۔ عید کے موقع پر خوشی ایک دوسرے سے ملنے اور مل بیٹھنے سے حاصل ہوتی ہے لیکن باقاعدہ ملنے کے بجائے جب موبائل کے ذریعے ایس ایم ایس کر دینے کو کافی سمجھ لیا جائے گا، تو پھر خوشیاں کہاں سے آئیں گی؟
Director Luc Besson's sci-fi thriller ‘Lucy,’ debuted at the top of the North American box office.
Director Luc Besson s sci-fi thriller "Lucy," about a woman turned superhuman by using 100 percent of her brain, debuted at the top of the North American box office, industry figures showed Monday.
The film -- starring Scarlett Johansson in the title role -- raked in $43.9 million, box office tracker Exhibitor Relations said.
It beat out another newcomer, big budget action flick "Hercules" starring Dwayne "the Rock" Johnson, which muscled its way to second place with $29.8 million.
"Dawn of the Planet of the Apes," the latest installment in the sci-fi series about humans and chimps clashing to survive, brought in $16.8 million, dropping to third place in its third week out.
Horror-thriller sequel "The Purge: Anarchy" scared up $10.5 million, landing in the fourth spot.
Meanwhile "Planes: Fire & Rescue," the Disney computer-animated tale of talking aircraft working to fight blazes and help save a national park, raked in $9.5 million for fifth place.
In sixth position with just over $6 million was comedy "Sex Tape," starring Cameron Diaz and Jason Segel as two parents trying to keep their homemade sex tape off the Internet.
Blockbuster sequel "Transformers: Age of Extinction" followed with $4.7 million in ticket sales. It has earned $236.4 million during its five-week run in theaters.
Romantic comedy "And So it Goes," starring Michael Douglas as a self-centered realtor whose life is interrupted by a granddaughter he never knew he had, and Diane Keaton as his neighbor, landed in eighth with $4.6 million.
Sliding into ninth was comic road trip romp "Tammy," starring Melissa McCarthy, which brought in over $3.4 million.
And rounding out the box office top 10 with $2.6 million was spy thriller "A Most Wanted Man," starring the late Philip Seymour Hoffman in one of his last performances.
Box office revenues in China surged 27 percent last year to $3.6 billion.
Imax and China s biggest state-owned film exhibitor are teaming up to open 19 giant screen cinemas in the world s No. 2 movie market.
Imax Corp. and Shanghai Film Corp. said Tuesday that a "significant number" of the theaters will open before the end of 2015.
No financial terms were disclosed. Shanghai Film already operates three Chinese Imax theatres.
Box office revenues in China surged 27 percent last year to $3.6 billion, making the country a crucial market for international film companies.
Government policies aimed at encouraging growth of Imax and 3-D movies are helping boost the format s popularity in China s tightly controlled film market.
"Transformers: Age of Extinction," the latest instalment of Michael Bay s blockbuster robot film franchise, earned nearly $10 million at Chinese Imax screens on its opening weekend, more than double the previous record, the company said.
The deal comes a year after Imax partnered with another Chinese company, Wanda Cinema, to open up to 120 of the Canadian company s theatres.
At the end of 2013, Imax had 173 cinemas in China and plans for 230 more by 2021, according to its latest annual report.
That puts China on track to become Imax s No. 1 market globally, overtaking the United States, where box office revenue growth is stagnating and the company has about 380 cinemas.
The music -- blues and Motown -- for which Detroit is now famous was also a constant presence.
When film director Steve Faigenbaum grew up in Detroit, the city pulsated to the sound of Motown and car manufacturing.
Today, the once mighty city, which declared bankruptcy in 2013, is a nightmarish vision of urban decay that draws young people from all over the world to buy a house for $1,000.
With the highest violent crime rate of any large US city, Detroit has lost 63 percent of its population since 1950.
At least 78,000 buildings stand abandoned and there is enough once-inhabited empty land to fit a city the size of Paris.
"It s just hard to imagine the scale of destruction," said Faigenbaum, whose film "City of Dreams" about what he calls Detroit s "slow motion catastrophe" has just been released in France.
"Almost anywhere you go there are these houses that are just falling apart. Big houses, just totally left, just abandoned," he said.
The grandson of Jewish immigrants from eastern Europe, Faigenbaum, 64, who now lives in Paris, moved away from the city in the late 1960s.
Years later, however, following his father s death he found himself back in Detroit.
Stunned by the apocalyptic landscape, he set out to try and make sense of it all.
"Growing up there, there was always this enormous sense of possibility, that whoever or whatever you were you could make something of yourself and do something," he told AFP in an interview in Paris.
- Nightmarish vision -
"Even as a student you could get a summer job and make a lot of money. There were jobs. You didn t need much of an education, you just needed to have the will to work," he said.
The music -- blues and Motown -- for which Detroit is now famous was also a constant presence.
"There was all this amazing music. On every street corner... and it kind of expressed everything that needed to be expressed.
"Now it seems quite remarkable, but it was just what was happening."
Mixing his own family history with up-to-date reportage and archive footage, Faigenbaum s film aims to show "how the choices people make play out over 100 years".
In particular, he highlights the "Wild West capitalism" of Ford Motor Company owner Henry Ford, whose Model T -- the first affordable car for the masses -- revolutionised the automobile industry.
In 1914, Henry Ford announced he would pay workers $5 per day, double the going rate, and people flooded into the city in search of work.
By 1950 the population stood at two million and the city was the centre of the US automotive industry.
But just as the automobile helped make Detroit, it also helped to destroy it.
"At the same time as the car comes along, they re building more roads," Faigenbaum said.
"The reality of the way it played out was that it was the escape route for all the white folks who could get out."
- Amazing spirit -
Land was cheap and tension between whites and blacks accelerated the exodus of whites towards newly built suburbs.
Meanwhile, the introduction of automated production in car factories sowed the seeds of future unemployment.
Faigenbaum notes that Detroit s urban decay was already well advanced in the 1980s when "devil s night" -- the night before Halloween -- would regularly see up to 800 empty properties burned down.
While making the film, Faigenbaum found himself back at his grandparents house, now derelict and daubed with the letters R.I.P., indicating that someone had been murdered there.
In the basement, he found his long-dead grandfather s old work bench.
Later he watched as the bulldozers moved in and reduced the house to rubble.
Faigenbaum warns that Detroit s demise is a reminder that even apparently thriving cities are not "immortal".
Today, despite all its woes, young people still come to the city in search of a cheap property.
"It s hard to rain on anyone s sense of optimism but there s still such violence. All these kids come here with the dream... until their friends get carjacked or someone is held up at gunpoint," Faigenbaum said.
Nonetheless, he said he was struck by the "amazing spirit" the place still had.
"One guy said to me OK, it s the murder capital of the world, but it s a really friendly place! and it s true, it s really true," he said.
"People will talk to you and they look you right in the eye, but they probably have a gun in their pocket too," he added.
The film is set to release on September 19 and Sonam is nervous as well as excited about it.
MUMBAI (Web Desk) Sonam Kapoor, who has stepped into the shoes of Rekha for the remake version of Khoobsurat , says she cannot do justice to what the veteran actress did in the original film.
Khoobsurat is the remake of Hrishikesh Mukherjee s cult comedy which featured Rekha in the lead role and Sonam is aware that her version will draw comparisons with the old classic.
"I don t think I can do justice to what Rekha has done. This film is an ode to Hrishikesh Mukherjee s filmmaking," Sonam, 29, told reporter here at the trailer launch of the film.
"There are very few films that have been wholesome entertainers and have great value. Hrishikesh Mukherjee s films appealed to all as they were fun films with a message. Today such films are made by Raju Hirani," Sonam said.
She thinks the 1980 release will be relevant even now as things like love, happiness and family values remain the same. In the film, Sonam plays Mili, a spirited young girl, who creates ripples in an order-crazy royal family.
"I am more like this character in real life. This is my personality. Rhea (her sister who has produced the film) and Shashanka (director) have taken a lot of me in this film. They have exposed my life completely," Sonam said.
The film is set to release on September 19 and Sonam is nervous as well as excited about it.
"It is a huge responsibility but it was exciting to work on this film," Sonam said. The movie marks the Bollywood debut of popular Pakistani actor-singer Fawad Khan. The original film had Rakesh Roshan as the male lead.
The film also stars Kirron Kher, Ratna Pathak and others. It is produced by Disney, Sonam s sister Rhea Kapoor and her father Anil Kapoor and is directed by Shashanka Ghosh.
She met Nelson Mandela and began doing charity work with him in 1993.
Naomi Campbell, the British supermodel as famous for her hot temper as her arresting beauty, says her campaign to counter racism in fashion was inspired by Nelson Mandela.
In an exclusive interview, Campbell told AFP that the global rights icon, who once dubbed her his "honorary granddaughter," remains a huge influence in her efforts to help young models of color.
"Mr Mandela always said to me you have to use who you are, to speak up on certain things," she said by telephone, a day before a photo shoot for Italian Vogue.
Campbell, now 44, has enjoyed phenomenal success, leaping almost overnight into the global stratosphere after being discovered as a 15-year-old Streatham schoolgirl out shopping in London.
She was one of the original "trinity" -- the planet s first supermodels -- joined by Christy Turlington and Linda Evangelista -- whose fame turned them into household names.
With cheekbones that could cut butter and mesmerizing almond eyes, the statuesque Campbell was the first black model on the covers of Time magazine, French Vogue and Russian Vogue.
She walked the catwalk for Versace aged 16 and was 18 when she first appeared on French Vogue.
Although Campbell has been in the tabloids nearly as often for assault charges and on-again, off-again romances as for her career, she remains in demand as a model as much today as ever.
She met Mandela and began doing charity work with him in 1993, growing close the Nobel laureate and former South African president, who died last December aged 95 after a lengthy illness.
Last September she lent support to the advocacy group "Diversity Coalition" that calls out high-profile designers who either did not use models of color at all in their fall fashion week shows, or only sent one down their catwalks.
Set up by former model agent Bethann Hardison, a woman whom Campbell describes as "like a second mother," the coalition works to increase the number of black models in the profession.
"You have to help the girls, Asian, Black, multi-race, you have to help them. And they need help and support and that s all what it just boils down to," Campbell told AFP.
Before her came Iman, the Somali model and wife of David Bowie, and Ethiopia s Liya Kebede, and after her there have been other black models, Jourdan Dunn, Joan Smalls and Chanel Iman.
- I always found another way -
This year Barbadian singer Rihanna was made style icon of 2014 at the CFDA fashion awards and Kenyan actress Lupita Nyong o has been toast of the glitterati as a young, beautiful black woman.
But Campbell says when her career took off in the late 1980s, there were more models of color on the runway and that today it is harder for young women of color.
The difference now is casting directors, who wield much more power, and young models feel their careers depend on them.
"If I was ever told no, I always found another way," she said.
"Now, it s a little different, you know because they re afraid to speak up now, because if they speak up, they won t get booked so we re speaking up for them."
She credits some of Europe s top couturiers, Yves Saint Laurent, Gianni Versace, Karl Lagerfeld and the Tunisian-born, France-based Azzedine Alaia with being "extremely supportive."
"For that I am very blessed and that s why I feel I need to support the young models now because the relationship with designers is not the same as it was when I started modelling."
In the past, Campbell has spoken out against discrimination that she herself faced, but was reluctant to discuss it with AFP.
She also refused to see the coalition as anything "militant" -- calling it "simply a conversation."
"It s simply a group of people who are adults, just sitting down and discussing why is this happening, why has this happened, and how can it change," she said.
She does believe people are more aware than before.
"The issue is out there, it s in the world, it s in social media, it s out there, so I think people are not able to escape like they were before," she added.