Gold is considered to be women’s love but Indian men have proved to be crazier about Gold. This man has got a Gold shirt prepared for himself. The shirt has been made with 4 kilograms of Gold and now he needs guards whenever he meets someone. Now this Gold-lover has to be extremely cautious as stealing a gold shirt is not that difficult a job.
ممبئی: بالی ووڈ کی ناظرین نے 70 کی دہائی کی کامیاب ترین فلم ’’شعلے‘‘ میں امیتابھ بچن اور دھرمیندر کی جوڑی سب سے کامیاب اور بہترین دوستی قرار دیا ہے۔
بالی ووڈ کی مشہور و معروف فلم ’’شعلے‘‘ کو کم و بیش 40 سال ہوگئے ہیں لیکن اس کا ہر کردار اب بھی ناظرین کے ذہنوں میں نقش ہے۔ فلم میں جہاں گبر سنگھ کے کردار نے امجد خان کو امر کردیا وہیں دونوں ہاتھوں سے محروم ٹھاکر کا کردار ادا کرنے والے سنجیو کمار بھی ناظرین کے ذہنوں میں نقش ہیں، فلم میں ہیرو کا کردار امیتابھ بچن کم گو ’’جے‘‘ اور دھرمیندر نے دل پھینک ’’ویرو‘‘ کا کردار ادا کیا تھا، فلم میں دونوں کی عادتیں ایک دوسرے سے یکسر مختلف دکھائی گئیں لیکن دونوں کے درمیان دوستی کو آج بھی ضرب المثل سمجھا جاتا ہے۔
حال ہی میں بھارت کی ایک ویب سائٹ کی جانب سے دوستی کل عالمی دن کے موقع پر ایک سروے کا اہتمام کیا گیا جس میں صارفین سے فلموں میں سب سے پسندیدہ دوست جوڑی کے بارے میں سوال کیا گیا۔ سروے کے دوران 39 فیصد افراد نے جے اور ویرو کی جوڑی کو بے مثال قرار دیا، دوسرے نمبر پر ’’کچھ کچھ ہوتا ہے‘‘ شاہ رخ خان اور کاجول (راہول اور انجلی ) جبکہ حال ہی میں ریلیز ہونے والی فلم ’’کوئن‘‘ میں کنگنا رناوت اور لیزا ہیڈن (رانی اور وجے لکشمی) کی جوڑی تیسرے نبمبر پر رہی۔
A Malaysian cyclist at the Commonwealth Games who wore gloves with "Save Gaza" written on them has been reprimanded by his team and warned he will be expelled if he does it again. Azizulhasni Awang competed in the men's sprint on Thursday wearing gloves that had the word "Save" written across knuckles on one hand and "Gaza" over the other. Awang's fists featuring the message were held up to cameras after the race, which took him into the quarterfinals.
KARACHI: Birthday of Miss Fatima Jinnah also known as Mader e Millat was observed on July 31th. Being the sister of Quaid e Azam is not the only reason that makes her such a glorious personality of our history. The things she did for this nation and country can only be expected from a mother. Madar-e-Milat Mohtarma Fatima Jinnah was born on July 31st 1893 in Karachi. Various social and political organisations would arrange cake-cutting ceremonies in the whole country to pay tributes to her hard work and efforts for the country and nation. Taking part in elections at the age of 72 or 73 and actively leading the campaign by traveling almost everywhere in Pakistan by using every mean is a courageous act indeed. She was the one who challenged the first marital law administrator of Pakistan, Ayub Khan, in presidential elections.
پنکج سنگھ نے اپنے ٹیسٹ ڈیبیو میں کوئی وکٹ حاصل کئے بغیر سب سے مہنگے بائولر بننے عالمی ریکارڈر بنا دیا۔
بھارت کے سیم بائولر پنکھج سنگھ ایک ایسے ریکارڈ کے مالک بن گئے ہیں جن کے وہ ہرگز خواہش مند نہیں تھے۔ پنکج سنگھ نے اپنے ٹیسٹ ڈیبیو میں کوئی وکٹ حاصل کئے بغیر سب سے مہنگے بائولر بننے کا عالمی ریکارڈر بنا دیا ہے۔ 29 سالہ بائولر نے انگلینڈ کے خلاف سائوتھ ہمٹن میں جاری تیسرے ٹیسٹ میچ کی دونوں اننگز میں بغیر کوئی وکٹ گرائے مجموعی طور پر 179 رنز دیئے۔ پنکج سنگھ سے پہلے یہ ریکارڈ پاکستان کے سہیل خان کے پاس تھا جنہوں نے 2009ء میں اپنے ٹیسٹ ڈیبیو پر سری لنکا کے خلاف بغیر کسی وکٹ کے 164 رنز دیے تھے۔ پہلی اننگز میں37 اوورز میں 146 رنز دینے والے سنگھ اس وقت بدقسمت رہے جب راوندر جڈیجا نے سلپ میں انگلش کپتان ایلسٹر کک کا پندرہ رنز پر کیچ ڈراپ کر دیا ۔کک نے اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے 95 رنز بنا ڈالے۔ اس کے بعد بھی بدقسمتی نے راجھستان سے تعلق رکھنے پنکج سنگھ کا پیچھا نہ چھوڑا۔ صفر پر کھیلنے والے این بیل وکٹ کے سامنے سنگھ کی لیٹ سوئنگ کو بالکل نہ سمجھ سکے لیکن ایمپائر نے سیمر کی ایل بی ڈبلیو کی پر اعتماد اپیل مسترد کر دی۔ بیل نے اس کے بعد انتہائی پر اعتماد 156 رنز بنا ڈالے۔ انگلینڈ نے بیل کی بیس ٹیسٹ میچوں کے بعد پہلی سنچری کی بدولت 569 سکور پر اپنی پہلی اننگ ڈیکلیئر کر دی تھی۔ تاہم پنکج سنگھ کے لئے خوشی کی ایک خبر یہ ہے کہ سب سے خراب ٹیسٹ ڈیبیو کا ریکارڈ اب بھی آسٹریلیا کے لیگ سپنر برائس مک گین کے پاس ہے۔ مک گین کا 2009ء کیپ ٹائون میں جنوبی افریقا کے خلاف ڈیبیو ہی ان کا آخری ٹیسٹ بھی ثابت ہوا۔ اس میچ میں میزبان ٹیم نے ان کے اٹھارہ اوورز میں جارحانہ 149 رنز بناتے ہوئے ایک اننگز اور بیس رنز سے کامیابی حاصل کی تھی
اسلام آباد: وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی نے ملک میں قائم اسمال سافٹ ویئر ٹیکنالوجی پارکس کو انفارمیشن ٹیکنالوجی پارکس میں تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور عالمی بینک اس منصوبے کے لیے پاکستان میں ساڑھے 4 کروڑ ڈالر کی سرمایہ کاری کرے گا۔
اس ضمن میں وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی حکام نے بتایا کہ مذکورہ اقدام کا بنیادی مقصد ملک میں ابھرتی ہوئی ٹیکنالوجی کی حوصلہ افزائی کرنا ہے۔ حکام کا کہنا ہے کہ مجوزہ آئی ٹی پارکس جدید انفرااسٹرکچر کے ساتھ تعمیر کیے جائیں گے جس کا مقصد انھیں عالمی تقاضوں سے ہم آہنگ بنانا اور اس شعبے میں جدید ٹیکنالوجی کو متعارف کرانا ہے۔ حکام کا کہنا ہے کہ عالمی بینک نے اس منصوبہ کے لیے ساڑھے 4 کروڑ ڈالر کی سرمایہ کاری کی خواہش ظاہر کی ہے، ان پارکس میں ریسرچ، ڈیولپمنٹ سینٹرز، ٹیلی کام، فارماسیوٹیکل، بائیوٹیکنالوجی، نینو ٹیکنالوجی، متبادل توانائی اور خلائی شعبے کی ترقی کے لیے کام کیا جا سکے گا۔
سندھ پولیس کی سیکیورٹی کے حوالے سے کاوشیں قابل تعریف ہیں، سیکڑوں جرائم پیشہ افراد گرفتارکیے گئے ہیں، یوم آزادی پر سیکیورٹی اقدامات پر مبنی ٹھوس منصوبہ بنایا جائے گا، ان خیالات کا اظہار آئی جی سندھ غلام حیدر جمالی نے امن و امان سے متعلق ایک اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے رمضان اور عید کے دنوں میں سیکیورٹی اقدامات پر مبنی پولیس کارکردگی کا تفصیلی جائزہ لیتے ہوئے کیا۔
انھوں نے کہا کہ جرائم اور دہشت گردی کے واقعات کے خاتمے کے لیے مزید کوششیں کی جائیں اور انتہائی ذمے داری سے فرائض انجام دیے جائیں، پولیس کی کاوشیں قابل تعریف ہیں جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ گزشتہ ایک ماہ میں 80 سے زائد دہشت گرد اور جرائم پیشہ افراد پولیس مقابلوں میں مارے جاچکے ہیں جبکہ سیکڑوں کی تعداد میں گرفتاریاں کی گئی ہیں۔
آئی جی سندھ نے کہا کہ کامیاب پولیس کارروائیوں کے لیے کمیونٹی پولیسنگ کے عملی نفاذ کو یقینی بنایا جائے انھوں نے کھا کہ اس سلسلے میں درپیش مشکلات کو دور کیا جائے اور پولیس اور عوام کے باہمی اعتماد اور تعاون کے لیے ہر ممکنہ اقدامات کیے جائیں، آئی جی سندھ غلام حیدر جمالی نے کہا کہ آنے والے دنوں میں اور باالخصوص 14 اگست یوم آزادی کے حوالے سے تقریبات کے ضمن میں ابھی سے ہی جامع پلان ترتیب دیا جائے۔
کراچی: ریسکیو آپریشن کے دوران سی ویو کے مقام پر نہاتے ہوئے سمندر میں ڈوبنے والے مزید 13 افراد کی لاشیں نکال لی گئیں جس کے بعد ڈوب کر جاں بحق ہونے والوں کی تعداد 25 ہوگئی ہے۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق عید کے موقع پر ساحل سمندر پر سیر و تفریح کے لئے آنے والے افراد نہانے کی غرض سے سمندر میں دور تک گئے اور پانی کی تیز رفتار موجوں کی نذر ہوگئے، دفعہ 144 کے باوجود شہریوں کی بڑی تعداد عید کے دوسرے روز بھی سمندر پر پہنچ گئی۔ عید کے پہلے روز تفریح کے لئے آنے والے متعدد افراد سمندر میں نہاتے ہوئے ڈوب گئے جس کے بعد فوری طور پر امدادی ٹیموں نے موقع پر پہنچ کر ریسکیو آپریشن شروع کردیا تاہم بدھ کی رات تک 12 افراد کی لاشیں نکالی گئیں جب کہ اندھیرا ہونے کے باعث ریسکیو آپریشن ملتوی کردیا گیا تھا۔
آج صبح پاک نیوی کے ہیلی کاپٹر اور ریسکیو کے دیگر عملے نے مل کر مزید 13 افراد کی لاشیں نکال لیں۔ ڈوبنے والے زیادہ تر افراد کی عمریں 15 سے 25 سال کے درمیان تھیں جن میں سے 5 لاشوں کو کوئٹہ روانہ کردیا گیا جن کا تعلق بلوچستان کے مختلف علاقوں سے بتایا جاتا ہے جبکہ دیگر لاشوں کو شناخت کے لئے جناح اسپتال منتقل کیا گیا ہے۔
واضح رہے کہ عید کےدوران ساحل پر عوام کی بڑی تعداد پکنک منانے آتی ہے اوراس دوران بعض منچلے سمندر میں نہاتے وقت احتیاطی تدابیر کا لحاظ نہیں رکھتے جس کے باعث اس طرح کے واقعات پیش آتے ہیں جب کہ اس موسم میں سمندر میں تیز لہریں بھی پیدا ہوتی ہیں، دوسری جانب سندھ حکومت نے کسی بھی ناخوشگوار واقعہ سے نمٹنے کے لئے ساحل سمندر پر دفعہ 144 نافذ کی تھی جس کی خلاف ورزی بھی کھلے عام جاری ہے۔
آنیوالی فلم بجرنگی بھائی جان میں سلمان خان کے ساتھ کام کرنیوالی اداکارہ کا کہنا ہے کہ سلمان کے ساتھ کام کرتے ہوئے ہمیشہ بہت مزہ آیا ہے اور اس فلم میں بھی ان کے ساتھ کام کرکے اپنا ہی لطف اٹھایا ہے انھوں نے کہا کہ اس فلم کا مجھے اسکرپٹ بہت پسند آیا تھا اور جب میں نے یہ فلم کی تو اپنا کردار مجھے حقیقت میں بہت ہی اچھا لگا انھوں نے کہا کہ فلم میں میرا کردار ایک برہمن لڑکی کا ہے انھوں نے کہا کہ میرے لیے اس فلم کے ڈائریکٹر کبیر بھی بالکل نئے ہیں اور ان کے ساتھ کام کرنا بھی میرے لیے ایک منفرد اور خوشگوار تجربہ تھا۔
ممبئی: بھارتی ریاست مدھیہ پردیش کے شہر بھوپال میں علما نے عیدالفطر کے خطبات کے دوران مسلمانوں کو سلمان خان کی نئی فلم نہ دیکھنے کی اپیل کردی۔
بھارتی میڈیا کے مطابق بھوپال کی تاریخی عید گاہ میں لاکھوں افراد نماز عید کی ادائیگی کے لئے موجود تھے اس دوران قاضی شہر سید مشتاق ندوی نے اپنے خطبے کے دوران کہا کہ عید الفطر رمضان المبارک میں کی گئی عبادات کا صلہ ہے اسے منانے کے کئی طریقے ہیں، اس بابرکت دن کو سینما گھروں میں جاکر برباد نہ کیا جائے بلکہ اپنے گھروں میں رہ کر مہمانوں کا خیر مقدم کریں اور اللہ کی رحمتیں حاصل کریں۔
مشتاق ندوی کا کہنا تھا کہ سلمان خان کا نام نہ لیتے ہوئے کہا کہ ہر سال عید الفطر پر ایک اداکار کی فلم ریلیز ہوتی ہے اور مسلمانوں کی بڑی تعداد اسے دیکھنے جاتی ہے لیکن وہ اب گزارش کرتے ہیں کہ آج وہ کوئی بھی فلم دیکھنے نہ جائیں۔ اگر مسلمان آج کے دن اس کی فلم نہیں دیکھیں گے تو وہ بھی عید کے موقع پر اپنی فلموں کی ریلیز نہیں کرے گا۔
ICC has banned English Cricketer Moeen Ali from wearing pro-Palestine wristbands during the ongoing England-India Cricket series in England. Moeen Ali wore the wristbands with slogans “Save Gaza” and “Free Palestine” on Second Day of the Test match. But the gesture proved costly for the English batsman as International Cricket Council has banned him from wearing the wristbands after criticism by international media. While the international community remained quiet on Israeli barbarity in Palestine, it has come down heavily on Moeen Ali for raising his voice in favor of the Palestinians. However, England and Wales Cricket Board has supported Moeen Ali’s stance saying that his stance was ‘humanitarian not political’.
عید عربی زبان کا لفظ ہے، جو عود سے مُشتق ہے عود کا مطلب کسی چیز کا بار بار آنا اور چوں کہ عید ہرسال آتی ہے، اس لئے اس کا نام عید (الفطر) رکھا گیا۔
رمضان المبارک کے روزوں، نزول قرآن، لیلۃ القدر، اللہ تعالیٰ کی طرف سے روزہ داروں کے لئے رحمت و بخشش اور عذاب جہنم سے آزادی کے باعث عید کو مومنین کے لئے ’’خوشی کا دن قرار‘‘ دیا گیا ہے۔عید شادمانی اور خوشیاں منانے کا دن ہے، اس دن بچے، جوان اور ضعیف العمر مرد وخواتین نئے ملبوسات زیب تن کرتے ہیں اور مرد حضرات عیدگاہ کی طرف روانہ ہوتے ہیں، جہاں وہ شکرانہ کے طور پر دو رکعت باجماعت نماز ادا کرتے ہیں۔ عیدگاہ سے واپسی کے بعد دومسلمان بھائی آپس میں گلے ملتے ہیں۔ ایک دوسرے سے اپنی کوتاہیوں، زیادتیوں اور غلطیوں کی معافی طلب کرتے ہیں، پھر کھاؤ اور کھلاؤ کا دور شروع ہوتا ہے۔
اگر کوئی شخص مالی اعتبار سے کمزور ہے، تب بھی وہ اپنی طاقت کے بقدر عمدہ سے عمدہ اور بہترین کھانے بنا کر مہمانوں کی اوردیگر احباب واقارب کی ضیافت کرتا ہے۔ وطن عزیز میں بھی عید روایتی اور مذہبی جوش و خروش سے منائی جاتی ہے، یہاں ہر طبقہ عید کی خوشیوں میں اپنے تئیں شریک ہونے کی کوشش کرتا ہے… لیکن ابتر ملکی حالات، غربت، مہنگائی، بے روزگاری، منفی سماجی رویے، بگڑتے خاندانی نظام اور جدید دور کی ایجادات (موبائل فون اور کمپیوٹر وغیرہ) کے غیرضروری استعمال کے باعث آج عید کی خوشیوں میں روایتی جوش، ولولہ، امنگ، خلوص، محبت اور پیار ناپید ہوتا جا رہا ہے۔
عید کا انتظار اور اسے منانے کے ساتھ منسلک جوش و خروش اب کہیں دکھائی نہیں دیتا، آج عید بہت مکینکل ہو گئی ہے، اس کی خوشی میں وہ خلوص اور فطری پن نہیں رہا جو پہلے ہوا کرتا تھا۔ عید کی حقیقی خوشی وقت کے ساتھ ساتھ ماند پڑتی جا رہی ہے اور یوں لگتا ہے کہ عید کے چاند کو غربت، مہنگائی، لوڈ شیڈنگ، بد امنی، عدم تحفظ، ناانصافی اور دیگر مسائل کا گہن لگتا جا رہا ہے۔ متعدد مسائل میں گھرے عوام کے لئے ماہ صیام کے روزوں کے بعد سب سے زیادہ خوشی دینے والا تہوار اب واجبی سا رہ گیا ہے۔
روز افزاں ترقی نے راستے سمیٹنے کے بجائے مزید بڑھا دیئے ہیں، اب عید کے روز شہری مصنوعی خوشیوں کی تلاش میں حقیقی عزیز و اقارب سے دور ہوتے جا رہے ہیں۔ آج سے تین، چار دہائی قبل عید کے رنگ ہی نرالے تھے۔ صبح صبح نماز عید کے بعد رشتے داروں کا ایک دوسرے کے گھروں کا چکر لگانا، بچوں کی عیدی کے لئے ضد، تحائف کا تبادلہ بھی اب کہیں کہیں ہی دیکھنے میں آتا ہے، جس کی بڑی وجہ تو مہنگائی کو قرار دیا جا سکتا ہے لیکن سماجی رویوں نے بھی ہمارے اطوار پر بڑا اثر ڈالا ہے۔
اب تو صرف موبائل فون کے ذریعے ’’فاروڈ‘‘ ایس ایم ایس بھیج کر اپنی اخلاقی ذمہ داری پوری کرلی جاتی ہے۔ عید پر بھیجے جانے والے تنہتی کارڈ ایک دہائی قبل موبائل فون کی آمد کے ساتھ ہی قصہ پارینہ بن چکے ہیں۔ ہمارا اجتماعی خاندانی نظام زوال پذیر ہونے سے اب عید تہوار پر ہی خاندان اکٹھے ہو پاتے ہیں، وہ بھی چند لمحوں کے لئے، اس دوران بھی خاندان کے بیشتر نوجوان، بچے موبائل اور کمپیوٹر پر وقت گزاری کو ترجیح دیتے ہیں جبکہ بڑے، بوڑھے پرانے وقتوں کو یاد کرکے کڑھتے نظر آتے ہیں۔ بڑوں کے ذہنوں اور دلوں پر عید کے جو نقوش کندہ ہیں، موجود زمانے میں وہ اسے یاد کر کے صرف آہیں ہی بھر سکتے ہیں۔
رمضان المبارک کے آخری روز چھتوں پر چڑھ کر مشترکہ طور پر چاند دیکھنے کی رسم بھی معدوم ہو چکی ہے، اب تو گھر والے اکٹھے ہو بھی جائیں تو ٹی وی کے سامنے بیٹھ کر باقاعدہ اعلان ہونے کا انتظار کرتے ہیں۔ چاند رات کو رشتہ داروں، ہمسایوں کے گھر عیدی لے کر جانے کا رواج دم توڑ گیا ہے، اس کے برعکس چاند نظر آنے کا اعلان ہوتے ہی سارا خاندان بازاروں کا رِخ کرتا ہے تاکہ خریداری میں اگر کوئی کمی رہ گئی ہے تو اسے پورا کرلیا جائے۔ ساری رات بازاروں میں گزارنے کے بعد گھر کے بیشتر افراد صبح سو جاتے ہیں اور محلہ یا شہر کی عید گاہ میں اکٹھے ہو کر نماز عید کی ادائیگی کے لئے جانے کی بجائے گھر میں نیند پوری کی جاتی ہے۔
ملک میں ایک دہائی سے جاری دہشت گردی، لاقانونیت اور شدت پسندی کے زخم بھی عید کے روز گہرے ہو جاتے ہیں اور ملک کے 50 ہزار سے زائد افراد (سرکاری رپورٹس کے مطابق) جو دہشت گردی کی آگ کا ایندھن بن چکے ہیں، عید پر ان کے گھروں میں حقیقی خوشی کی توقع کرنا درست نہ ہوگا، یوں براہ راست لاکھوں خاندان متاثر ہوئے ہیں۔ جن لوگوں کے اپنے پیارے دہشت گردی کی نذر ہو چکے ہیں اُن کے لیے زندگی اپنے معمول سے ہٹ چکی ہے اور عید پر بھی دکھ کا ماحول برقرار رہتا ہے۔
ایسا ماحول بن گیا ہے کہ شہروں میں عید کے روز بھی شہری گھروں میں دبک کر بیٹھنے کو ترجیح دیتے ہیں کہ کسی اندھی گولی یا کسی خودکش بمبار کا نشانہ بننے سے بہتر گھر میں رہنا ہے۔ ہر شخص اپنی ذات کے خول میں بند اپنی جان اور عزت بچانے کے لئے جہدوجہد میں مصروف ہے۔ بچوں کی معصوم خواہشات پوری کرنے کے لالے پڑے ہوتے ہیں۔
ماضی کی عید کی روایات اور خوشیاں قصہ پارینہ بنتی جا رہی ہیں۔ لوگوں کے پاس ایک دوسرے کے لئے وقت نہیں، ہر شخص اپنی مصروفیات کے بوجھ تلے دب گیا ہے۔ کچھ تو معاشی اور سماجی مسائل، کچھ ہم نے خود ہی اپنی عیدیں ویران کردی ہیں۔
ملک کے بڑے بڑے شہر پردیسیوں کی اپنے شہروں، دیہاتوں کو روانگی کی وجہ سے ویران ہو جاتے ہیں جبکہ جو پردیسی ہفتوں، مہینوں، سالوں بعد اپنے آبائی علاقہ میں قدم رکھتے ہیں تو وہاں کا نقشہ بھی تبدیل ہو چکا ہوتا ہے، وہاں ان کے سب جاننے والے اپنی زندگی کی مصروفیات میں مگن ہو چکے ہوتے ہیں، جس کی وجہ سے پردیسی اپنے آبائی علاقوں میں بھی پردیسیوں جیسی عید گزار کر واپس پردیس روانہ ہو جاتے ہیں۔
آج ہماری عیدیں مہنگائی، عدم تحفظ، افراتفری، منافقت سے آلودہ ہیں جبکہ ماضی میں ایسی چیزیں بہت کم دیکھنے میں آتی تھیں۔ معاشرے میں بڑھتی ہوئی طبقاتی خلیج نے بھی عیدوں کا رنگ پھیکا کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ چاند رات پر ایک مخصوص طبقہ خریداری پر بے دریغ رقم لٹاتا نظر آتا ہے تو دوسری طرف لاکھوں افراد عید کے روز بھی گھر کا چولہا روشن رکھنے کی تگ و دو میں مصروف دکھائی دیتے ہیں۔ لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ ماضی کی ان خوشگوار اور محبت بھری روایات کو پھر سے زندگی بخشنے کی کوشش کی جائے، جس کے لئے سب سے ضروری نکتہ ہمارا خود پر انحصار کرنے کے ساتھ اپنے اندر دوسروں میں خوشیاں بانٹنے کا جذبہ پیدا کرنا ہے، کیوں کہ اسی مشق سے ہم اپنی پھیکی پڑتی زندگیوں میں دوبارہ سے رنگ بھر سکتے ہیں۔
مہنگائی، بیروزگاری، لوڈ شیڈنگ جیسی مشکلات پر قابو پانا تو ہمارے بس کی بات نہیں، لیکن اگر ہم اپنے طرز عمل میں معمولی تبدیلی لے آئیں تو عید کی خوشیوں کو دوبالا کیا جا سکتا ہے۔ عید سے قبل ہم اپنے قریبی رشتہ داروں، ہمسائیوں کے حقوق کا بھی خیال کریں اور انہیں اپنی خوشیوں میں شامل کریں تو ہماری اپنی مسرتیں بھی دوبالا ہو جائیں گی۔ عید کا دن گھر پر سو کر گزارنے کے بجائے رشتہ داروں، دوست احباب کیساتھ گزارا جائے۔ پرانی رنجشیں بھلا کر سب کو معاف کر کے نئے سرے سے شروعات کی جائے تو بیشتر پرانے زخم مندمل ہو سکتے ہیں اور رنجشیں بھلانے کیلئے عید سے بہتر کون سا موقع ہو سکتا ہے؟
ماند پڑتی عید کی خوشیوں پر مذہبی، سماجی اور معاشی ماہرین کیا کہتے ہیں…؟
ماہر معاشیات ڈاکٹر قیس اسلم نے ’’ایکسپریس‘‘ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ جب چیزیں کمرشلائز ہوتی ہیں تو پھر تہوار امیروں تک ہی محدود ہو جاتے ہیں۔ نہایت افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ پاکستان کی کُل آبادی کا 85 فیصد غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کر رہا ہے۔
عید خوشی کے بجائے ان کیلئے ایک خوف بنتی جا رہی ہے کیوں کہ اس تہوار پر اٹھنے والے اخراجات کی ان میں استعداد ہی نہیں۔ یہ لوگ رشتہ داروں حتی کہ اپنے بچوں سے بھی منہ چھپاتے پھرتے ہیں، تو کون عید کی خوشیاں منائے گا؟۔ استاد جامعہ دارالقرآن فیصل آباد مفتی محمد یونس چیمہ نے بتایا کہ اسلامی نقطہ نظر سے عید خالص دینی تہوار ہے، جس کے مخصوص اعمال اور احکامات ہیں۔ عید کا رسومات سے کوئی تعلق نہیں، کیوں کہ رسم و رواج ہردور اور علاقہ کے اپنے اپنے ہوتے ہیں، جو وقت کے ساتھ بدلتے بھی رہتے ہیں۔
بازاروں کو سجانا اور نوجوانوں کی ٹولیوں کی صورت میں ہلڑبازی، فلم دیکھنے کے لئے سینماؤں میں جانے سمیت دیگر خرافات کو عید کی روایتی یا حقیقی خوشی نہیں کہا جا سکتا۔ ہاں وطن عزیز میں عید کی فطری خوشی میں کمی ضرور آئی ہے، جس کی وجوہات امن و امان کی ابتر صورت حال، گھریلو تنازعات، جرائم کی شرح میں اضافہ، فرقہ واریت، موسمی سختی اور لوڈشیڈنگ جیسے عوامل ہیں۔ سوشیالوجی ڈیپارٹمنٹ پنجاب یونیورسٹی کے سربراہ و ماہر سماجیات پروفیسر ڈاکٹر زکریا ذاکر کا کہنا ہے کہ ہم کس چیز کی خوشی منا رہے ہیں؟
ماہ صیام کا بنیادی مقصد تو دیانتداری اور معاشرے میں بہتری لانا ہے لیکن ہمارا معاشرہ تو ابتری کی طرف گامزن ہے، کیوں؟ کیوں کہ ہمارے رویے اور اعمال درست نہیں، رمضان المبارک کے دوران سرکاری دفاتر میں چلے جائیں تو ہر بندہ کہہ رہا ہوتا ہے، آج کل تو کوئی کام نہیں ہو رہا، عید کے بعد آئیے گا، حتی کہ چھابڑی والا بھی سبزی مہنگی کر دیتا ہے، تو ایسے میں ہمیں عید کی فطری خوشی کیسے نصیب ہو گی۔ پھر ہمارے ہاں بجلی اور پانی نہ ہونے سے لوگ پتھر کے دور میں رہے ہیں، وسائل کم اور مسائل بڑھنے سے خوشیاں ہم سے روٹھ رہی ہیں۔
معروف دانش ور ڈاکٹر عاصم اللہ بخش کے مطابق مصنوعی ماحول کی وجہ سے حقیقی خوشیاں ہم سے دور ہوتی چلی جا رہی ہیں۔ عید کے موقع پر خوشی ایک دوسرے سے ملنے اور مل بیٹھنے سے حاصل ہوتی ہے لیکن باقاعدہ ملنے کے بجائے جب موبائل کے ذریعے ایس ایم ایس کر دینے کو کافی سمجھ لیا جائے گا، تو پھر خوشیاں کہاں سے آئیں گی؟